تبصرہ: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
حوزہ نیوز ایجنسی|
دینِ مبین اسلام کی رو سے بھی اور آئینِ پاکستان کی رو سے بھی اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ قانون سازی کا سر چشمہ قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں اور طاقت کا حقیقی منبع عوام ہیں، کیونکہ عوام ہی اپنے صالح اور امانت دار نمائندے منتخب کرکے نظامِ حکومت چلاتے ہیں۔ پاکستان کا نظامِ حکومت پارلیمانی جمہوریت ہے۔ 1973 کا آئین ایک متوازن اور متفقہ قومی دستاویز ہے جس میں دینی اقدار بھی محفوظ ہیں اور ریاستی و ملی مفادات بھی۔ اس آئین پر تمام دینی، سیاسی، علاقائی اور قومی طبقات نے اتفاق کیا تھا، لہٰذا اس آئین میں دینی و ملی اصولوں کے بر خلاف تبدیلیاں ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
اسلامی و جمہوری اصولوں کے مطابق قانون سازی کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے؛ وہ بھی اس صورت میں جب وہ آزاد، خود مختار اور کسی دباؤ یا جبر سے پاک ہوں۔
جمہوری نظام ہر انداز سے فردِ واحد کی آمریت سے بہتر ہے، کیونکہ جمہوریت میں نمائندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، جبکہ آمرانہ نظام میں حکمران نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی عوامی مزاج و مفاد کو اہمیت دیتے ہیں۔
جمہوری نظام کے بنیادی ستون
ہر جمہوری ریاست چند اہم ستونوں پر قائم ہوتی ہے:
1. آزاد و خود مختار عدلیہ
2. آزاد و خود مختار پارلیمنٹ
3. آزاد و خود مختار حکومت (Executive)
4. آزاد و خود مختار ذرائع ابلاغ (میڈیا)
یہ تمام ادارے عوام کے حقوق کے محافظ اور ریاستی نظام کے ضامن ہوتے ہیں۔
مگر موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام ستون شدید کمزوری اور دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی حیثیت اور ترامیم کا پس منظر
موجودہ پارلیمنٹ عوامی مینڈیٹ سے محروم ہے۔
جنہیں عوام نے ووٹ دیا وہ ہرا دیے گئے، اور جو ہار گئے تھے وہ فارم 47 کے ذریعے ایوانوں میں پہنچا دیے گئے۔
طاقتور غیر منتخب عناصر نے پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ ادارہ بنا دیا ہے۔
ممبران کو خریدنا، دباؤ ڈالنا، اٹھا لینا؛ یہ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے۔
موجودہ اسمبلی میں بیٹھے افراد کی ایک بڑی تعداد آزاد، با اختیار اور عوامی نمائندے نہیں بلکہ مجبور، خوفزدہ یا مفاد پرست لوگ ہیں جن کے ذریعے پہلے سے تیار شدہ ترامیم منظور کروائی جاتی ہیں۔
ایسی صورت میں تیار کردہ قوانین اور ترامیم حقیقی قانون سازی کی حیثیت نہیں رکھتے۔
27 ویں آئینی ترمیم ایک سنگین اور خطرناک پیش رفت
اس ترمیم کے ذریعے:
صدرِ مملکت اور اعلیٰ فوجی قیادت کو عملاً عمر بھر کے لیے جواب دہی سے استثنیٰ کر دیا گیا ہے۔
ان پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی، خواہ جرم، کرپشن یا بدعنوانی کیوں نہ ہو۔
وہ آئین و قانون کی گرفت سے بالاتر قرار پا گئے ہیں، جبکہ تمام مراعات بھی برقرار رہیں گی۔
یہ اقدام:
قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے خلاف
آئین پاکستان کی روح کے منافی
شریعت و قانون میں مساوات و احتساب کے بنیادی اصولوں کی نفی
اسلامی تاریخ میں انبیاء، آئمہ، خلفاء اور حکمران عوام اور عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے مگر یہاں انسانوں کو ایسے مقام پر بٹھا دیا گیا ہے کہ عملاً عصمت کا سرٹیفکیٹ مل گیا ہے۔
ریاستی ستونوں کی تباہی کی تکمیل
ترتیب وار ریاست کے اہم ستونوں کو کمزور کیا گیا:
1. میڈیا کو پابند کرنے کی ترمیم
2. عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کے اقدامات
3. آزاد پارلیمنٹ کی جگہ غلام ذہنیت والی اسمبلی
4. ایک کمزور، غیر نمائندہ اور عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر چلنے والی حکومت
5. اب 26 ویں اور 27 ویں ترامیم کے ذریعے عدلیہ کو مکمل طور پر Executive کے تابع کر دینا
سپریم کورٹ کو عملاً غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔
جب جج کا تقرر اور تبادلہ حکومت کرے گی تو انصاف کی آزادی کیسے برقرار رہے گی؟
ہمارا مؤقف
ملتِ تشیع پاکستان کے ذمہ دار افراد اس ترمیم کو ہرگز قبول نہیں کرتے کیونکہ:
یہ قرآن و سنت کی صریح خلاف ورزی ہے۔
آئین کی بنیادی روح کو پامال کرتی ہے۔
معاشرے میں انارکی، اضطراب اور بدامنی کو جنم دے گی۔
عوام کا صبر جواب دے سکتا ہے اور ملک خدا نخواستہ خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ سکتا ہے۔
ہم قائدِ وحدت علامہ راجا ناصر عباس کی ہدایات کے مطابق سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ:
ان ترامیم کو فی الفور واپس لیا جائے!
آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کیا جائے!
عوامی مینڈیٹ سے محروم ایوان کو مزید قانون سازی سے روکا جائے!









آپ کا تبصرہ